محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! آپ کی کرم نوازیوں میں سے 20،21،22 نومبر کا اجتماع بھی ہم پر بہت بڑا کرم، شفقت‘ محبت‘ دعاؤں، اعلیٰ تربیت پانے، بہت ہی امن سکون روحانیت پانے‘ سلیقہ پانے‘ مل کر رہنے ایک دوسرے کا ادب‘ احساس محبت سیکھنے کا بہت ہی بڑا بہت ہی پرجوش ‘خوش کن خزانہ تھا۔ یہ خزانہ ہمیں دنیا کے سب خزانوں سے قیمتی عطا ہوا ہے جسے ہم عمر بھر یاد رکھیں گے۔بہت دعاؤں‘ نوافل کے بعد آخر وہ دن آہی گئے جن دنوں کا شدت سے انتظار تھا۔ خوشیوں بھرا پیغام تھا‘ روحانی ‘جسمانی شفائیں‘ عطائیں ملنے کا پیغام تھا۔ یوں لگ رہا تھا‘ عید آگئی ہے۔ ایسے موقع پر حضرت عالی نے جو ’’خوشبو‘‘ کا ہدیہ عنایت فرمایا اس خوشی کے تو کیا ہی کہنے‘ بس جزائے خیر تو اللہ ہی عطا فرمائیں گے۔ہم حضرت کی خانقاہ میں بروز جمعرات تشریف لائے شب جمعہ تھی قرآن ختم کرکے حضرت اور آپ کے حضرت رحمۃ اللہ علیہ اور والدین رحمۃ اللہ علیہم اور اپنی امی جان رحمۃ اللہ علیہ کو ہدیہ کرتی ہوئی درس میں بیٹھی‘ حضرت کی آمد پر پورا مجمع سراپا شوق اور مجسمہ نیاز بن جاتا ہے۔ حضرت کا دلگداز درس ذکر جو ہزاروں کے مجمع نے جب ایک آواز میں اللہ کو اخلاص والہیت سے پکارا تو عجیب سماں بندھ گیا شاید ہی کوئی آنکھ دل ہو جو اشکبار نہ ہو۔ عجیب نورانی سماں تھا لب پہ آسکتا نہیں۔اللہ کریم مبارک تسبیح خانہ کو سلامت تاقیامت شاذو آباد رکھے۔ حضرت جس طرح تزکیہ نفس کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ تربیت پانے والوں میں اس کے اثرات نمایاں نظر آرہے تھے‘ ہر کوئی دوسرے کیلئے خدمت، محبت، وفا، احساس کا ایسا نمونہ پیش کررہا تھا جس کی مثال نہیں‘ ہر فلور مہمانوں سے پُر تھا۔ دو ماہ سے لیکر سات سال کے بچے جو ماؤں کے پاس تھے وہ بھی فرمانبردار‘ جوان‘ بوڑھے پر اور بوڑھے جوانوں پر شفقت کی مثال تھے۔ نہایت پرسکون ماحول تھا۔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں۔
سب نے مل جل کر بستر لگائے‘ میں بیسمنٹ میں ٹھہری‘ میں نے آج تک ایسا دلفریب محبت کا منظر کبھی نہ دیکھا تھا۔ یوں لگ رہا تھا ہزاروں کا مجمع ایک ماں باپ کی اولاد ہیں۔ جو مل جل کر رہتے‘ کھاتے پیتے‘ سوتے ہیں۔ تسبیح خانہ ماں کی گود محسوس ہورہا تھا۔ بالکل ایسا ہی لگ رہا تھا جیسے چھوٹا بچہ ماں کی گود میں پرسکون بے خوف خطر سویا ہو۔ اٹھتے تو جسمانی غذا اور روحانی غذا درس کی شکل میں فیڈر مل رہا‘ کھاتے پیتے سوتے روحانی جسمانی نشوونما خوب تر ہورہی۔ اس کا ایک واقعہ پیش کرتی ہوں میری بیٹی سرہانے کے بغیر سوئی صبح اٹھ کر کہتی ہے ماما میں جب اٹھی توحیران تھی اتنے نرم گرم سرہانے پر کیسے سوئی‘ دیکھا تو ایک آنٹی کے پیٹ پر سوئی ہوئی تھی اور آنٹی بھی خوب مزے کی نیند میں تھی‘ عجب محبت کا سماں تھا‘ لب پہ آسکتا نہیں۔شب جمعہ جب رات بارہ بجے کے بعد سوئے تو میرے رخسار پر گدگدی سی محسوس ہوئی میں دو بجے اٹھ بیٹھی تو سب بکھرے پروانوں کی طرح سورہے‘ صرف سانس چل رہی‘ میری نظر بیسمنٹ میں سیڑھیوں کی طرف گئی‘ ہلکی روشنی میں کوئی قد دراز سفید لباس میں شخصیت کھڑی ساتھ عربی کھلا لباس میں ‘درمیانی قد میں دوسری شخصیت‘ میں حیرانی سے ان کو دیکھ رہی‘ میں نے ان کا چہرہ نہیں دیکھا وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوگئے‘ معلوم نہیں وہ کیا تھے؟ عجب منظر تھا لب پر آسکتا نہیں۔ کھانے کا انتظام اور انتظامیہ بہت اچھا مہذب ماحول‘ تربیت یافتہ خدمت کرنے والی اپنی خدمات پیش کررہی تھی۔ لاتعداد مجمع پیٹ بھر کر برکت سے بھرپور لنگر تناول کرتے اور چائے تو ہر کوئی ایسے پی رہا جیسے کوئی کسر رہ نہ جائے حلوہ الغرض خوب سے خوب تر غذا۔ کھانے کے دوران لاتعداد کا دگنا اضافہ ہوجاتا۔ پاؤں رکھنے کی جگہ نہ رہتی پھر بھی ہر فلور میں ایسا ہی ہر کوئی پیٹ بھر کر کھاتا‘ عجب سماں لب پر آنہیں سکتا۔
صفائی کے ساتھ ترتیب بہت اعلیٰ‘ ٹائم ٹیبل کے مطابق زندگی‘ ہر فلور پر ہر رنگ‘ہر فرقے‘ ہرعلاقے کے لوگ مل جل کر رہ رہے‘ خدمت کرنے والوں کی جزا تو اللہ کے سوائے کون دے سکتا ہے جنہوں نے ترتیب کا بہت خیال رکھ کر لوگوں کیلئے بہترین مثال قائم کی کہ ایسے مخلص ہوتے ہیں۔ باتھ روم‘ صاف ستھرے‘ نہ ہی پانی کی کمی‘ نہ ہی صابن کی کمی‘ نہ ہی جوتوں کی کمی‘ نہ کسی قسم کی بدبو‘ بہت ہی اعلیٰ صاف ماحول۔ خدمت گزاروں نے ایسی خدمت کی ہروقت صاف ماحول میسر آیا۔ نہ جھگڑا‘ نہ شور‘ ہجوم مگر سب پرسکون کھڑے تھے۔ اللہ نے ہر دفعہ ہجوم کے باوجود جلد فارغ کیا‘ نہایت ہی عافیت کا معاملہ تھا۔ کچن، برتن ہر چیز صاف‘ کھانا بابرکت‘ واقعی تسبیح خانہ امن و روحانیت کا حقیقی مرکز ہے۔ سب کو امن ملا‘ روحانیت ملی‘ عجب سکون ملا‘ لب پہ آسکتا نہیں۔ میں تو صبح و شام حفاظت کی دعائیںحم لاینصرون پڑھ کر سب فلور کی زیارت کے لیے اور دم کرتی مجھے تو ہر فلور میں عجیب مسحور کن خوشبو آتی۔ جو محسوس کیا جو دیکھا وہ لب پہ آسکتا ہی نہیں۔ ہر اللہ کی بندی عاشق تھی‘ہر ایک کو تسبیح خانہ سے حضرت سے بہت محبت دکھائی دے رہی تھی۔ سب سے گنہگار میں ہی تھی‘ سب سے کم صلاحیت رکھنے والی نے سب لوگوں سے بہت محبت ادب سیکھا ہے۔ مجھ گنہگار کو تسبیح خانہ کی برکت سے رات دو بجے سے پانچ بجے تک لمبی دعاؤں کی سعادت نصیب ہوئی اور گنہگار کے پاس کچھ نہ تھا‘ سوائے موٹے بڑے لاتعداد آنسوؤں کا نذرانہ‘ جو سب کیلئے دعا میں پیش کیا۔ دل بے قابو تھا‘ بس عجیب لذت تھی‘ لب پہ آسکتی نہیں۔ بیٹی کو بھی تین دنوں میں پانچ سو نوافل پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ہر درس، ہر ذکر، مراقبہ روح کو زندہ کرنے والا تھا۔ عورتوں نے انتہائی ادب سے درس سنے‘ کوئی شور شرابہ اونگھ نہ تھی بلکہ بہت ہمت سے ڈٹ کر مضبوط ہوکر بیٹھی تھیں۔ سب سےکم تر میں ہی عاشق تھی‘ باقی سب میں عشق جذبے کی انتہا تھی۔ دم پر مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے بہت ہی بڑےنورانی پَر ہیں ہم سب ان پَروں میں سماگئے ہیں۔ ایسا سکون تھا کہ بس ہمیشہ اس سکون میں رہیں مگر وقت رکتا نہیں۔ وقت نے بے بس کردیا‘ ختم ہوگیا‘ گزر گیا‘ کیسا تھا لب پہ آنہیں سکتا۔ وقت ختم ہوچکا تھا اور ہم گھروں میں جانے پرمجبور تھے‘ میں تو رونے لگی‘ میں نے بڑی بہن سے کہا میںنہیں جاؤں گی‘ میں ہمیشہ یہاں ہی رہوں گی‘ مگراپنے مجھے لے آئے ہیں۔ مگر یہ نہیں جانتے کہ میرا دل تسبیح خانہ کے بیسمنٹ میں ہی رہ گیا ہے۔ میں وہاں ہی رہوں گی وہاں ہی مرجاؤں گی۔ مگر اب میں گھر پر ہوں مگر وہ یادیں ہرپل میرے ساتھ ہیں۔ میرے بچوں نے بہت اچھا اثر لیا ہے‘ ہروقت ایک دوسرے سے کہتے ہیں اللہ والے ایسا کرو‘ اللہ والی ایسا نہ کرو‘ مل مل کر رہو‘ اللہ والے مل مل کر کھاؤ‘ جتنا مل کر کھاؤ گے اتنی ہی برکت ہوگی۔ مجھے ہروقت لنگرخانہ جیسی دال کا مطالبہ کرتے ہیں‘ پھر ایک چھوٹی پرات میں ڈال کر روٹی کے ٹکڑے بنا کر بانٹ کر کھاتے ہیں اور ایک باؤل میں پانی پیتے ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہورہی ہے‘ ہماری نسل سنور جائے ہمیں کیا چاہیے۔ اللہ کریم آپ کو‘ آپ کے حضرت رحمۃ اللہ علیہ‘ آپ کے والدین رحمۃ اللہ علیہ‘ آپ کے دوست احباب‘ آپ کے معاونین‘ آپ کی اہلیہ‘ بچے‘ نسلوں کو وہ جزا دے جو کسی آنکھ نہ دیکھی نہ ہو‘ جو کسی نے سوچی نہ ہو‘ جو کبھی کسی نے پائی نہ ہو۔ اللہ کریم اپنی خاص حفاظت‘کفایت‘ مدد میں رکھے۔ میں تو کہتی ہوں اے اللہ مجھے مانگنا نہیں آتا میرے حضرت کو آپ خود ہی وہ نعمتیں دیں جو وہ اللہ سے مانگتے ہیں۔ آپ تو بس اللہ سے اللہ کو ہی مانگتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں